
Series of Sketches
This set of drawings showcases all of the topics covered regarding children's rights.
یہ خاکے بچوں کے حقوق کی تمام مسائل کی عکاسی کر تے ہیں۔









ٹوٹے ہوے کھلونے
زیادہ تر لڑکیوں کی جلدی شادی ہوتی ہیں بہ نسبت لڑکوں کے اسلئے کہ انکے والدین غربت میں رہ رہے ہوتے ہیں . پیسوں کے بغیر وہ کیسے بچوں کو پالیں؟ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہوجاتی ہے. اکثر لڑکیاں سر پر بوجھ سمجھی جاتی ہیں.انکا کوئی قصور نہیں ہوتا، لیکن انکی جلد از جلد شادی اکثر بڑی عمر کے آدمی سے کر دی جاتی ہے۔ جو والدین اپنی بچیوں کی شادی کم سنی میں کردیتے ہیں وہ اصل میں انکی زندگی تباہ کردیتے ہیں. چھوٹی سی لڑکی کا بچپن ختم ہوجا تا ہے. گڑیوں سے کھیلنے کے بجائے وہ اصلی بچوں کو پال رہی ہوتی ہیں. کبھی سوچا ہے کہ کیا آپ بھی اپنی معصوم بچی کو اس حالت میں دیکھنا چاہیں گے؟
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
دہشت گردی اور خاص طور سےاس میں بچوں کی شمولیت پاکستان ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. یہ بچے زیادہ تر پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے پکڑے جاتے ہیں. ان لڑکوں کو کم عمری میں ہی دہشت گردی میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔ ان سے کھلونے چھین لئے جاتے ہیں اور ہاتوں میں بندوقیں پکڑا دی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انکی معصومیت اور بچپن بہت جلد ہی چھن جاتا ہے۔ ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں بچپن کی شرارتوں کے بجائے غصہ اور دشمنی ڈال دی جاتی ہے. کیا آپ کبھی چاہیں گے کہ آپکا بچہ خودکش دہشت گرد بنے؟
ادھورے خواب
جسیے میں اس پتھر کو شکل دے رہی ہوں کاش کہ میں اپنے مستقبل کو اس طرح بنا سکوں. کیا میں اپنی پڑھائی کو اہمیت دوں یا پھرکام کو؟
بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں کام نہیں کرنے چاہیں کیو نکہ یہ عمر انکے کھیلنے کی ہوتی ہے. ایسے بہت سے غریب بچے سارا دن کام کر کے گزارتے ہیں. اتنے چھوٹے سے جسم پر اتنا بڑا بوجھ ڈال دیتے ہیں جیسے وہ بہت بڑے ہوں. ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیس ملین سے زیادہ بچے مزدوری میں کرتے ہیں.
بے بسی
پاکستان میں چھوٹے چھوٹے بچے سڑکوں اور محلوں سے کھلیتے ہوئے اغوا کرلیے جاتےہیں۔ اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انکے والدین غربت کی وجہ سے انہیں بیچ دیتے ہیں. انکو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ انکا بچہ اچھے گھروں میں زندگی گزارے گا۔ لیکن اس کے بجاَئے وہ عرب ملکوں میں "اونٹوں کی دوڑ" کے ایجنٹس کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں اور اونٹوں کی دوڑ میں چارے کے طور سے استعمال کیے جاتے ہیں. ان کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچے نوکری پر لگ جائیں گے اور ہر مہینے خوب ڈھیر سارے پیسے بھیجے گا. لیکن وہ پیسے والدین کو کبھی پہنچ نہیں پاتے. اغواشدہ بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ نہ انہیں اپنے گھر کا پتہ ہوتا ہے نہ ہی والدین کا پورا نام معلوم ہوتا ہے. وہ کبھی اپنے گھر واپس نہیں آ پا تے اور زندگی بھر اغوا کننداگان کے ہاتوں میں کھلونے بنے رہتے ہیں.
تعلیم سے محروم
جن بچوں کے پاس تعلیم نہیں ہو تی ہے وہ اس کے لیے ترستے ہیں. پاکستانی معاشرے میں بہت سے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں کچھ والدین اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں اور ان کے گھروں میں جو آمدنی ان کے ذریعے سے آتی ہے وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ وہ ان کی تعلیم کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے ۔ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنا اس کا بنیادی حق ہے کیونکہ تعلیم انسانوں کے کردار و ذہن کی تعمیر کرتی ہے ۔