
مہرالنسا نواز
سمجھتی ہوں کہ ایک تصویر ہزاروں الفاظ کے برابر ہوتی ہے. اور اگر وہ تصویر یا ڈرائنگ اچھی
بنی ہوتی ہےتو وہ دیکھنے والے کوموضوع کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ۔ اسکیچ آرٹسٹ سید ایاز پنسل سکیچ اور پینٹنگز بچوں اور بڑوں دونوں کی بناتے ہیں۔ ہم نے انکو اسلئے بھی چنا ہے کیونکہ انہوں نے بچوں کی مزدوری پر بھی پینٹنگ بنائی ہے۔.
شمع علوی
میرے خیال میں پاکستانی معاشرے کی بہتری کا صرف یہی حل ہے کہ لڑکیوں کی شادی انکو پڑھانے کے بعد کی جائے تاکہ وہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال بہتر طریقے سے کر سکیں. اور اس بات کا پرچار کرنے کے لئے میڈیا، حکومتی ادارے ا اور غیر سرکاری اداروں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ تاکہ معاشرے میں یہ بات پوری طرح سے پھیل سکے کہ کم عمری کی شادی ایک بہت پرانی رسم ہے اورآج کی دنیا میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں برابر مانے جانے ہیں وہاں سے یہ
معاشرتی ناسور جلد سے جلد ختم ہو سکے۔.
عمر نواز
ہمارے اسٹیج ڈرامے میں عمر مالک کا بیٹا ہے اور سراج غریب آدمی کا بیٹا ہے . ہم دونوں تیرہ سال کے ہیں. سراج کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا ہے. اور عمراسکول جاتا ہے. سراج پورا دن گھر کا کام کرتا ہے اور عمر کمپیوٹر پر کھیل کر فارغ وقت گزارتا ہے. غریب بچہ لوگوں کے لئے کام کرتا ہے جب کہ مالک کا بیٹا کھیل کود کر وقت گزارتا ہے۔ ایک دفعہ سراج کھانا بنا کر عمر کو ديتا ہے. عمر کو کھانااچھا نہیں لگتا اور وہ کھانا بدتمیزی سے پھینک دیتا ہے۔.
حرا اقبال
ان میں سے ایک تصویر بچوں کی مزدوری کے بارے میں ہے اور دوسری بچوں کی تعلیم کے بارے میں. پہلی تصویر میں ایک بچی پتھر توڑ رہی ہے اور اس کی کتابوں کا بیگ سائیڈ میں رکھا ہے.اس تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ چھوٹے بچے مزدوری کے کرنے لیئے نہیں ہو تےکیونکہ ان کے چھوٹے چھوٹےہاتھ مشقت کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔
علینا ہاشمی
۔ ہم نے یہ کتاب ایک فلم ‘’تارے زمین پر’ سے متاثر ہو کر لکھی ہے ا۔اس فلم میں ایک بچہ اسکول جاتا ہے مگر اسکو پڑھنا اور لکھنا بہت مشکل لگتا ہے کیونکہ اسکو سیکھنے کی معذوری ہے۔ سب اسکا مذاق اڑاتے ہیں اور گھر میں بھی کوئی اسکی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔ جو کہانی میں نے لکھی ہے وہ اسی کہانی کی طرح ہے۔ مجھےبہت دکھ ہو تا ہے جب کوئی کسی کوچھوت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے میں نے یہ کہانی لکھی ہے
رابعہ علوی
میں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ اس لیئے کیا تھا کیونکہ شاعری کی زبان بہت لوگ سمجھتے ہیں شاعری کا لوگوں کے دلوں پہ اثر بھی بہت ہوتا ہے۔ شاعری احساس کی دنیا کو چھو کر دلوں کے اندر تک اتر جاتی ہے جوکچھ بھی شاعری میں لکھا جاتا ہے وہ سب لوگ پڑھ سکتے ہیں اور لوگوں کو بہت دیر تک یاد رہتا ہے۔ اس طرح ہماری بات بہت سے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ میں نے کو شش کی ہے کہ ایسی نظمیں لکھوں جوعوام کے مسائل کے بارے میں ہوں۔ اور پڑھیئے
سلمان منظور
میں نےبینظیر بھٹو ا ورمالالہ یوسف زئی کے بارے میں لکھی گئی کہانیوں کے بارے میں بھی سرچ کیا تھا جب میں نے یہ کہانی لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں لکھنے کے لیئے سوچا تھا ۔ میرے خیال میں تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ملنی چائیے۔ میں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ اس لیئے کیا تھا کیونکہ جب کہانی لکھی جاتی ہے وہ سب لوگ پڑھ سکتے ہیں میں اپنی بات کو ملالہ ، بینظیر بھٹو اور سعید نقوی کی طرح سب تک لے جانا چاہتا تھا کیونکہ تعلیم ہر ایک کے لیئے -بہت ضروری ہے
اثنا عمرزئی
میں نے اور رابعہ نے ایک شاعری کی کتاب لکھی ہے جس کے ساتھ ہم نے تصوریں بنائیں ہیں۔ یہ تصویریں ہماری شاعری کی ترجمانی کر تیں ہیں ہماری کتاب میں چھ نظمیں ہیں۔ میں نے شاعری کے الفاظ کے مطابق اس میں تصویریں بنائی ہیں کیونکہ ایک تصویر اپنی کہانی خود کہتی ہے اور ایک تصویر میں بہت طاقت ہوتی ہے شاعری کی طرح لوگوں پر اثر کرنے کی۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اردو نہیں پڑھ سکتے ہیں لیکن میری تصویریں دیکھ کر رابعہ کی شاعری کو سمجھ سکتے ہیں ۔
برجیس خان
میں نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ اس لیئے کیا تھا کیونکہ جو کہانی لکھی جاتی ہے وہ سب لوگ پڑھ سکتے ہیں اس طرح ہماری تعلیم کے بارے میں جو سوچ ہے وہ بہت سے لوگوں تک پہنچے اور لوگ ہماری سوچ ہمارے خیال سے متاثر ہو کرلوگ پاکستان میں تعلیم کی ترقی کے لیئے کام کریں جب بھی کسی سوچ کسی خیال کو لفظوں میں لکھا جاتا ہے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے میں چاہتی ہوں کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ تعلیم ہر ایک کے لیئے کتنی ضروری ہے ۔
حرا مظفر
مجھے ویب سائیڈ بنا نے کا شوق ہے اور میں یہ کام کرنا چاھتی ہوں۔ پھر ہم نے ویب سائیڈ بنا نی شروع کی وکس ڈاٹ کام پر- اس پر ہم نے سارے مو ضوعات کی سرخیاں بھی بنائیں اور اپنی کلاس کے بارے میں تصویریں بھی ڈالیں - اس پہ ہم لنکس بھی ڈال رہے ہیں دوسری تنظیموں کے بارئے میں جو پاکستان میں بچوں کے حقوق کے بارے میں کام کر رہیں ہیں۔ ہمیں کچھ تنظیموں کو ڈھونڈنے میں پاکستان سے ذکرا نے مدد کی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ریڈ کرسنٹ اور( اس او اس ویلیج) کے بارے میں جو پاکستان اور پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کا کام کر تیں ہیں- ہم نے خود سے بھی دوسری تنظیمیں ڈھونڈیں جنکے لنکس ہماری ویب سائیڈ پرہوں گے۔
اقرامغل
بچوں کی کم عمری میں ملازمت، کم عمری میں شاد یاں، تعلیم کی کمی اور عکسریت پسندی کا رجحان وغیرہ شامل ہیں۔ ہم نے مل کر ان تمام موضوعات کو اکھٹا کر کے اسٹا رٹاک پروگرام کے تحت بننے والی ویب سائٹ “بچے ہمارا مستقبل” پر پیش کر رہے ہیں ۔
سراج مغل
مجھے لگتا ہے کہ ڈرامہ لوگوں تک اپنا پیغام پہچانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ڈرامے میں دو لڑکوں کی زندگیاں دکھائی گئی ہیں جس میں ایک لڑکا بہت امیر گھر کا ہےا اور بہت نخرے بازہے۔ دوسرا لڑکا اسی گھر میں کام کرتا ہے اوراس کو اسکول جانے کا شوق ہے لیکن وہ نہیں جا سکتا ہے کیوں کہ اسکے والدین کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
حمیرا منصوری
کم عمری کی شادی پاکستان جیسے غریب ملکوں میں عام ہے کیوںکہ وہاں کے لوگ بہت غریب ہیں اور وہاں تعلیم کی بہت کمی ہے۔ اس لیئے کم عمری میں لڑکیوں کی شادی پاکستان کی عام روائتوں میں ابھی بھی شامل ہے۔ لڑکیوں کے ماں باپ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی لڑکیوں کی جلدی شادی کرکے معاشرے کی برائیوں سے بچا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی لڑکی اپنے میاں کے
گھر خوش رہے گی اور اسکی زندگی بہتر گزرے گی۔